حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ امام حسن علیہ السلام کی صلح کے عنوان پر شیعہ سماچار فیس بک پیج پر دو روزہ آن لائن جلسہ منعقد ہوا۔ دوسرے جلسہ میں حجۃ لاسلام والمسلمین مولانا سید رضا حیدر زیدی صاحب پرنسپل حوزہ علمیہ حضرت غفرانمآب ؒ لکھنؤ نے سورہ مبارکہ فتح کی پہلی آیت (ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کی۔) کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج کر صلح کا مطالبہ کیا تو امام حسن علیہ السلام نے حالات کے پیش نظر چند شرائط پر اس سے صلح فرمائی کہ حاکم شام کتاب خدا اور سنت رسولؐ پر عمل کرے گا، حاکم شام کو اپنے بعد کے لئے کسی کو جانشین معین کرنے کا حق نہیں ہے، شیعوں کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت حاکم شام کے ذمہ ہو گی۔ ممکن ہے بعض ذہنوں میں سوال پیدا ہو کہ جب ان شرائط پر عمل نہیں ہوا تو امام حسن علیہ السلا م نے کیوں صلح کی تو امامؑ نے صلح کر کے دین اسلام کی حقانیت ثابت کی اور باطل کے چہرے پر پڑی اسلام کی نقاب کو اتار دیا۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے روایت بیان کی کہ صلح کے بعد ایک سوار شخص نے امام حسن علیہ السلام کو دیکھ کر کہا السلام علیک یا مذل المومنین یعنی آپ پر سلام ہو ائے مومنین کو ذلیل و رسوا کرنے والے، تو امام ؑ نے اس سے کہا کہ سواری سے اتر کر میرے پاس آؤ ۔ وہ آیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا تو اس نے اپنی بات دہرائی السلام علیک یا مذل المومنین یعنی آپ پر سلام ہو ائے مومنین کو ذلیل و رسوا کرنے والے۔ تو امامؑ نے اس سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے کیوں صلح کی ہے؟ اس نے کہا کہ آپ نے عمدا حکومت غیر عادل کے حوالہ کر دی ہے تو امام ؑ نے اسے رسول اکرمؐ کی حدیث یاد دلائی تو وہ مطمئن ہو ا، امام حسن علیہ السلام کی یہ سیرت ہمارے لئے نمونہ عمل ہے کہ اگر کوئی دین کی حکمتوں کو نہ سمجھے تو اسے بھگانا نہیں چاہئیے بلکہ اسے محبت سے سمجھانا چاہئیے کیوں کہ جب انسان حکمت سمجھ لے گا تو ہدایت یافتہ ہو جائے گا لیکن اگر ہم نے غیض و غضب میں آ کر کسی کو دور کر دیا تو اس کے لئے راہ ہدایت کو بند ہو جائے گا۔
مولانا سید رضا حیدر زیدی نے فرمایا: اسی طرح اگر آج مراجع کرام کا کوئی فتویٰ کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اسے سوچنا چاہئیے کہ عصر غیبت میں یہی مراجع نائب امامؑ اور دین کے محافظ ہیں۔ اور ان افراد کو بھی ایسے ہی صبر و تحمل اور محبت سے سمجھانا چاہئیے جیسے امام حسن علیہ السلام نے سمجھایا تا کہ کسی کے لئے راہ ہدایت بند نہ ہو۔